.
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم - بسم الله الرحمن الرحيم - الصلوة والسلام علیک یا سیدی رسول اللہ صلى الله عليه وسلم

HAZIR-O-NAZIR - Quran Sunnah ki Roshoni Me Urdu.

لبیک یارسول اللہﷺ
0
HAZIR-O-NAZIR - Quran Sunnah ki Roshoni Me.

AQEEDA HAZIR O NAZIR.PDF DOWNLOAD 

 ہم اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حاذیر اور نادر ہیں، جس کا سادہ لفظوں میں مطلب یہ ہے کہ وہ ہمارے اعمال کو دیکھتے ہیں اور اس طرح ہم آپ کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں۔ وہ نادر ہے کیونکہ وہ ہمارے اچھے اور برے اعمال کو دیکھتا ہے۔


حاضر/ناظیر کی تعریف 


مفتی احمد یار خان اور علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں


حدیر نادر سے مراد یہ نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں ہوتے ہوئے اپنی امت کے اعمال کو دیکھتے ہیں۔ وہ اپنی قبر سے دوسری جگہوں پر جا سکتا ہے جہاں وہ روحانی طور پر پسند کرتا ہے۔ وہ ہمارے لیے دعا کرتا ہے۔


[توزیح البیان شرح صحیح مسلم جلد 1 باب معراج جا الحق باب


مفتی احمد یار خان کا الحدیر ونادر


حدیر/ناظیر کا ثبوت


اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے۔


"اے نبی! اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے آپ کو گواہی دینے والا، خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔"


[سورہ احزاب آیت نمبر 45]


قرآن نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ’’شاہد‘‘ (گواہ) کہا ہے اور گواہ وہ ہے جو حاضری کے وقت دیکھتا ہے۔ [مفردات، امام راغب، لفظ شاہد کے تحت]


اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شاہد بنا کر بھیجا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اسے استعاراتی طور پر حذیر/ناذیر کہتے ہیں اور یہ کہ وہ اس طرح حذیر/ناظیر نہیں ہے جس طرح فرشتے کرماں، کاتیبین ہیں۔ (وہ فرشتے جو ہر انسان کے دائیں اور بائیں کندھے پر ہر وقت موجود رہتے ہیں۔)


حدیث سے حدیث اور نادر کا ثبوت


حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں:


امام قرطبی لکھتے ہیں: فرشتے ہر روز امت کے اعمال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ یہ درست نہیں بلکہ سچ یہ ہے کہ امت کے اعمال ہر روز نہیں بلکہ ہر جمعہ کو پیش کیے جاتے ہیں۔ [تفسیر ابن کثیر سورہ النساء آیت نمبر 41 کے تحت]


حافظ ابن قیم لکھتے ہیں:


یہ سچ ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر میں ان کی امت کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں۔ یہ غیر مستند احادیث میں سے ہے اور اس پر تعجب کی کوئی بات نہیں کیونکہ جب ہمارے والدین اس دنیا سے چلے جاتے ہیں تو ہمارے اعمال ان کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں۔ تاہم، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ، وہ تمام انسانوں اور جنوں کے اعمال کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے. [قصیدہ نونیہ 13 از حافظ ابن قیم]


حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں


جب کسی مسلمان کے والدین کا انتقال ہوتا ہے تو ان کے سامنے ان کی اولاد کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں۔ اگر اعمال اچھے ہوں تو خوش ہوتے ہیں لیکن اگر ان کے اعمال برے ہوں تو اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ان کی مغفرت فرمائے۔ [تفسیر ابن کثیر سورہ توبہ کی آیت نمبر 105 کے تحت حافظ ابن کثیر]۔


حافظ ابن رجب رحمہ اللہ بھی اس بارے میں کہتے ہیں؛


ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے انسانوں کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں، اس لیے انسان کو برے کام کرتے ہوئے شرم آنی چاہیے۔ [لطائف المحرف حافظ ابن رجب ص 91]


بعض لوگوں کو یہ سمجھنے میں دقت ہو سکتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں اتنی طاقت کیسے ہو سکتی ہے کہ وہ ہر روز یا ہفتے میں ایک بار اپنی امت کے اعمال کو دیکھتے ہیں۔ اول تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایسا کام کبھی مشکل نہیں ہو سکتا اور دوسری بات یہ کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو اس نوعیت کی صلاحیتیں عطا فرماتا ہے تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے۔


حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں


اس کی مثال فرشتہ عزرائیل علیہ السلام کی ہو گی جن کی نظر میں ہر وقت لحاف محفوظ رہتا ہے اور اسی کے ذریعے وہ ساری دنیا کو دیکھتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ دن میں پانچ بار خشکی اور پانی کے نیچے ہر گھر کا دورہ کرتا ہے۔ [تفسیر ابن کثیر، سورہ سجدہ، آیت نمبر 11 کے تحت۔ طارق ابن کثیر جلد 1، باب لامحفوظ میں بھی]


اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے علاوہ شیطان کو بھی طاقت دی ہے جو سمندر میں اپنے عرش پر بیٹھتا ہے اور تم جہاں بھی ہو تمہیں دیکھتا ہے۔ [سورہ اعراف، آیت 27 کے تحت]


پس اگر اللہ تعالیٰ ایک کافر کو ایسے اختیارات دے سکتا ہے تو یہ یقین کرنا کیوں مشکل ہے کہ وہ اپنی مخلوق میں سے سب سے زیادہ محبوب ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی طاقتیں دے سکتا ہے؟


اوپر دیے گئے شواہد سے یہ ثابت کرنا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پوری امت پر گواہ ہیں - اور حذیر/نذیر سے یہی مراد ہے۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا


’’میری زندگی تمہارے لیے بہتر ہے، تم احادیث بیان کرتے ہو اور تمہارے لیے احادیث روایت کی جاتی ہیں۔ جب میں مرجاؤں گا تو اس سے تمہیں فائدہ ہوتا رہے گا کیونکہ تمہارے اعمال میرے سامنے پیش کیے جائیں گے۔ اگر میں کوئی اچھا کام دیکھوں تو اللہ کی حمد کروں گا، اگر میں آپ کی کوئی برائی دیکھوں گا تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے معافی مانگوں گا۔ 

[مجمع الزوائد، جلد 9، صفحہ 24]


اس سب کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حاضر ہیں۔


ir/Nadhir ہمارے اعمال پر۔


حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں: قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے اعمال اور سابقہ امتوں کے اعمال پر گواہ ہوں گے۔ حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت بھی اس بات کی گواہی دے گی کہ پچھلے انبیاء نے اپنی اپنی امتوں تک اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا پیغام پہنچایا۔ اس پر پچھلی امتوں کے لوگ کہیں گے کہ جب وہ اس وقت موجود نہیں تھے تو وہ کیسے گواہی دیں گے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت جواب دے گی: ہمیں خبر دی گئی تھی۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پچھلے تمام رسولوں نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے پیغام پہنچایا تھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود اس بات کی گواہی دیں گے۔ آپ سے پہلے تمام انبیاء نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے اپنی اپنی امتوں تک پیغام پہنچایا تھا۔ [تفسیر ابن کثیر، سورہ بقرہ، آیت 143 کے تحت]


قیامت کے دن امت کی سند پر اعتراض ہو گا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام/ سند پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ درحقیقت یہ ایک فیصلہ کے طور پر استعمال ہوگا کیونکہ امت کی سند اس سے ہوگی جو انہوں نے سنی ہے (قرآن و سنت سے) لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سند اسی سے ہوگی۔ گواہی دی تھی.


امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھلے تمام انبیاء اور ان کے پیروکاروں کو دیکھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت کی گواہی میں یہی فرق ہے۔ [صحیح البخاری باب المناقب]


مندرجہ بالا سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گواہی کو چیلنج نہیں کیا جائے گا، کیونکہ ان کی گواہی قابل مشاہدہ ہوگی۔


 حوالہ :حاضر و نذیر

Post a Comment

0Comments

Assalam o Alikum

Post a Comment (0)